Skip to main content

گلگت بلتستان اور پاک چین اقتصادی راہداری

By Noor Pamiri  

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران دفترخارجہ کے ترجمان نے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے، اور اسے ملک کا آئینی حصہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ۔ انہوں نے یہ ھی کہا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک علاقے کو آئینی صوبہ بنانایاپھر آئینی حقوق دینا ممکن نہیں ہے۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گلگت میں اعلان کیا تھا کہ علاقے کو آئینی حقوق دینے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائےگی۔ اس سلسلے میں امور خارجہ کے مشیر جناب سرتاج عزیز صاحب کو ذمہ داری دی گئی تھی۔ وزیر اعظم کے اس اعلان نے علاقے کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو یہ ڈھارس بندھائی تھی کہ شائد اب جبر کے دن تھو ڑے ہیں۔ لیکن دفتر خارجہ کے ترجمان نے لگی لپٹی رکھے بغیر اس کمیٹی کے قائم ہونے سے پہلے ہی اس کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ یعنی، اب کمیٹی بنانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی کیونکہ بوجوہ، ایسا گمان ہوتا ہے کہ اگر کمیٹی وجود میں آبھی جاتی تو اس سے گلگت بلتستان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے تھے۔
گلگت بلتستان ایک عجیب وغریب خطہ ہے۔ یہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جس کے باشندے ملک میں شمولیت کے لیے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران دفترخارجہ کے ترجمان نے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے، اور اسے ملک کا آئینی حصہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ۔
دہائیوں سے کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسا بہت کم ملکوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں مرکز سے الگ ہونے کی تحریکیں تو بہت ہیں، لیکن مرکز میں شامل ہونے کی تڑپ رکھنے والے اس علاقے کے باشندے اپنی جگہ منفرد ہیں۔ آج بھی تمام تر محرومیوں کے باوجود یہاں کے زیادہ تر باسی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور صرف نعروں پر ہی اکتفا نہیں کرتے۔ اس علاقے کے جوان سرحدوں، شہروں، قصبوں اور دیہات میں افواج پاکستان اور دیگر مسلح اداروں میں شامل ہو کر قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ اس علاقے کے بیٹے اور بیٹیاں ریاستی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود دنیا کی بلند و بالا چوٹیوں پر ہلالی پرچم لہرا چکے ہیں اور فخر سے سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔ لیکن پاکستان انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے، حقوق دینے اور منتخب و غیر منتخب ریاستی اداروں میں نمائندگی دینے سے مسلسل گریزاں ہے۔
حال ہی میں بنائی گئی بائیس رکنی کمیٹی کی مثال لیجئے جس کے ذمے پاک چین اقتصادی راہداری کی نگرانی کا اہم اور انتہائی نازک کام ہے۔ مذکورہ کمیٹی میں سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے نمائندے شامل ہیں، لیکن ڈھونڈے سے بھی کوئی نام گلگت بلتستان سے نہیں ملے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کو اس منصوبے میں کوئی حصہ نہیں دیا جائےگا، باوجود اس حقیقت کے کہ شاہراہ قراقرم، جسے توسیع دے کر پاک چین اقتصادی راہداری بنایا جارہا ہے، گلگت بلتستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے ، یعنی بھاشا سے خنجراب تک پھیلی ہوئی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری نگران کمیٹی میں نمائندگی سے محروم گلگت بلتستان کے عوام اس منصوبے کے اہم حصے دار ہیں، کیونکہ اس کی تعمیر میں علاقے کے وسائل استعمال ہو رہے ہیں، اور جن علاقوں سے یہ راہداری گزرتے ہوے چین میں داخل ہوتی ہے، وہ اس “متنازعہ” خطے کے “متنازعہ” باسیوں کی قانونی ملکیت ہے ۔
میرے خیال میں وہ وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان کی ریاست گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ ایک نیا اور مضبوط عمرانی معائدہ کرے تاکہ آئینی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ، قدرتی وسائل پر مقامی لوگوں کی حقِ ملکیت تسلیم کرنے اور صاف اور شفاف طریقے سے وسائل اور آمدنی کے منصفانہ استعمال کی سبیل ہو سکے۔
گلگت بلتستان کے باشندے اقتصادی راہداری کی نگرانی کے لیے بنی اس بائیس رکنی کمیٹی کو گلگت بلتستان کے حقوق کا محافظ تسلیم نہیں کر سکتے۔ یہ ایک غیر نمائندہ کمیٹی ہے جس سے گلگت بلتستان کے لوگوں کے قانونی، معاشی اور اقتصادی حقوق کی پاسداری کی توقع رکھنا خودفریبی کے مترادف ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ مجوزہ راہداری کے خلاف نہیں لیکن موجودہ سیاسی و غیر آئینی نظام میں اس راہداری سے ہم خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے ہیں۔
پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے دیامر بھاشاڈیم، بونجی ڈیم اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے بہت اہم ہیں اور یہ سارے منصوبے گلگت بلتستان کی سرزمین پر تعمیر ہو رہے ہیں۔ ان منصوبوں کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کی ریاست اور حکومتیں اس آئینی طور پر محروم خطے کے غریب عوام کو تمام منصوبوں میں نہ صرف نمائندگی دیں بلکہ حقوق کے تحفظ کے لیے واضح، منصفانہ اور شفاف طریقہ کار اور حکمت عملی وضع کرے۔ ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات سے گلگت بلتستان کو فائدہ پہنچانے کے لیے لازمی ہے کہ علاقے کونیشنل فائنانس کمیشن، مشترکہ مفادات کونسل اور وسائل کی تقسیم کے دیگر مرکزی آئینی اداروں میں نمائندگی دی جائے ۔ میرے خیال میں وہ وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان کی ریاست گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ ایک نیا اورمضبوط عمرانی معائدہ کرے تاکہ آئینی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ، قدرتی وسائل پر مقامی لوگوں کی حقِ ملکیت تسلیم کرنے اور صاف اور شفاف طریقے سے وسائل اور آمدنی کے منصفانہ استعمال کی سبیل ہو سکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خطے کے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں میں تیزی سے پھیلتے احساسِ محرومی کے اثرات خطرناک ہو سکتے ہیں۔

بزریعہ لالٹین

Comments

Popular posts from this blog

Episode 1: A Window to Gilgit-Baltistan

A window to Northern Areas-I, The Muslim dated July 4, 1997. By Syed Shamsuddin   Most of our people even today seem quite oblivious of the geo-political position of Northern Areas while the exact historical background concerning Gilgit-Baltistan and where these must stand politically remains yet another subject of discussion. Not to speak of a layman, a person of the stature of Chief Executive of the country, once inquired whether the Northern Areas an integral part of the north west frontier province (NWFP). This happened when he rule the country in the aftermath of martial law. Yet another minister on Kashmir and Northern Areas, during the democratic government that followed, was pleased to tell a member of the northern areas council that he owed his minisitership not to them (Northern Areas people) but to the turbaned man of his constituency, standing at the door of his official chambers. There is infact, dearth of substantial historical evidence as to when exactly man ...

Honoring the Legacy of Late Muhammad Hashim: A Life of Compassion and Service

By Syed Shamsuddin A Facebook post last year (2023),by Mummad Ghazi Khan Lone, featuring a poignant photograph of the late Muhammad Hashim, a former colleague of his, stirred vivid memories of the extraordinary life led by this remarkable individual. Hashim’s life was a testament to tireless service, dedicated to the welfare of the public. Every endeavor he undertook reflected his unwavering commitment to making a meaningful impact on the lives of those around him. His legacy is one of altruism, resilience, and an enduring desire to uplift the community. I first had the privilege of meeting him in the 1990s at the district court in Gilgit, where I would often represent my department. From our very first interaction, I was struck by his humility and his deep-rooted compassion. Over the years, it became clear that he was not merely a man of words but of action, always willing to lend a helping hand to those in distress. At that time, I was residing in Khomar, Gilgit, and I vividly rec...

The Gilgit Revolution (1st November, 1947)

Slide Show by Scribd AN ANONYMOUS REAPPRAISAL OF THE REVOLUTION AT GILGIT (1ST NOVEMBER 1947) THROUGH REVIEW OF MAJOR WILLIAM ALEXANDER BROWN’S BOOK “THE GILGIT REBELLION- 1947”  HAVING FOUND A copy of the subject anonymous 'Reappraisal of the Gilgit Revolution, 1947' in the course of a casual rummaging through this scribe’s tidbits file, it is taken verbatim for the information of the readers for a dispassionate ‘evaluation’ in order to help collate facts, test the veracity of various versions contained therein aimed at positing a debate pegged in correct historical perspective. It precisely begins with: ‘William Alexander Brown was born on December 22, 1922, who was enlisted in the army and somewhere in 1942, was short-course-commissioned as a 2nd Lieutenant from Officer Cadet Training Unit Bangalore, India. He was immediately transferred to the Frontier Corps of Scouts and Militias where he served in South Waziristan Scouts and became proficient in Pushto.  In earl...